Tuesday, 10 May 2011

who was osama bin laden ... now in urdu.. very intresting.. read and share

اسامہ بن لادن کا مکمل نام اسامہ بن محمد بن عوض بن لادن۔

خاندانی پس منظر

اسامہ بن لادن کا تعلق سعودی عرب کے مشہور رئیس خاندان لادن فیملی سے ہے۔ اسامہ بن لادن محمد بن عوض بن لادن کے صاحبزادے ہیں جو شاہ فیصل کے خاص دوستوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ لادن کا کاروبار پورے مشرق وسطہ میں پھیلا ہوا ہے۔ اسامہ کے بقول انکے والد نے امام مہدی علیہ اسلام کی مدد کے لیے کروڑوں ڈالر کا ایک فنڈ قائم کیا تھا۔ اور وہ ساری زندگی امام مہدی کا انتظام کرتے رہے۔ ایک انٹرویو میں اسامہ بن لادن نے اپنے والد کے بارے بتاتے ہوئے کہا کہ "شاہ فیصل دو ہی شخص کی موت پر روئے تھے، ان دو میں سے ایک میرے والد محمد بن لادن تھے اور دوسرے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو تھے۔۔

تعلیم

اسامہ بن لادن نے اپتدائی تعلیم سعودی عرب سے ہی حاصل کی بعض ازاں انہوں نے ریاض کی کنگ عبد العزیز یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا۔ اسامہ بن لادن کے بارے میں بعض مغربی صحافیوں کا ماننا ہے کہ انہوں نے لندن کی کسی یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی، تاہم اسامہ بن لادن کے قریبی حلقے سے اس سوچ کی نفی ہوتی ہے۔

حرمین کی تعمیر

اسامہ بن لادن کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ انہیں ہمیشہ سے مقدس اسلامی مقامات مسجد الحرام اور مسجد نبوی اور سے انتہائی عقیدت رہی ہے۔ ان کی تعمیراتی کمپنی نے شاہ فیصل اور شاہ فہد کے ادوار میں ان دونوں مقدس مقامات کی تعمیر کا کام کیا تھا۔ اسامہ بن لادن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ذاتی طور پر اس منصوبے میں دلچسپی لی اور مختلف توسیعی منصوبے اپنی نگرانی میں مکمل کرائے۔

مذہبی رجہانات

اسامہ کو مذہبی رجہان انکے والد محمد ان لادن سے وراثت میں ملا تھا۔ اسامہ بن لادن اور ان کا خاندان سعودیہ عرب کے عام لوگوں کی طرح امام احمد بن حمبل کا مقلد اور شیخ عبدل وہاب نجدی کے اجتہاد کا حامی ہے۔ شروع میں انہوں نے ایک عرب شہزادے کی سی زندگی گزاری مگر وقت کے ساتھ ھاتھ انکے اندر تبدیلیاں آئیں۔ 1979 میں افغانستان پر سوویت یونیں کی جارحیت کی خبر انہوں نے ریڈیو ہر سنی۔ ابتدا میں انہوں نے افغان مجاہدین کی مالی معاونت کی مگر کچھ عرصے بعد وہ خود اپنی تمام دولت اور اساسوں کی پرواہ کئے بغیر میدان کارزار میں اتر آئے۔ اسامہ بن لادن نے شیخ عبداللہ عظائم اور دیگر عرب مجاہدین کے ساتھ ملکر سوویت فوجیوں کے دانت کھٹے کر دئے۔

عملی میدان

80 کے عشرے میں اسامہ بن لادن مشہور عرب عالم دین شیخ عبد اللہ عظائم کی تحریک پر اپنی تمام خاندانی دولت اور کیف و سروت کی زندگی کو خیر باد کہ کر کمیونسٹوں سے جہاد کرنے کیلیے افغانستان آگئے.۔ جب مجاہدین کے ہاتوں روس کی شکست کے بعد جب مجاہدیں کی قیادت اقتدار کے حصول کے لیے اپس میں جھگڑ پڑے تو اسامہ بن لادن مایوس ہو کر سعودیہ عربیہ چلے گئے۔ جب اسامہ بن لادن میں تھے تو صدام حسین نے کویت پر حملہ کر کر اس پر قبضہ کر لیا۔ اس موقیع پر جہاں دنیا کے اکثر ممالک نے عراق کے اقدام کو کھلی جارہیت قرار دیا وہاں باقی عرب ممالک عراق کے اس قدم کو مستقبل میں اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھنے لگے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہو جہاں آمریکہ نے ایک طرف کویت کا بہانہ بنا کر عراق پرحملہ کردیا تو دوسری طرف وہ سعودیہ عرب کی سلامتی کو لاحق خطرات کا بہانہ بنا کر شاہ فہد کی دعوت پر مقدس سرزمین میں داخل ہوگیا۔ تاہم اس موقع پر اسامہ بن لادن نے مقدس سرزمین پر آمریکی فوجیوں کی آمد کی پر زور مخالفت کی اور شاہ فہد کو یہ پیش کش کی عراق کے خطرات سے نمٹنے کیلیے ایک اسلامی فورس تشکیل دی جائے اور امید دلائی کہ وہ اس کام کے لیے اپنا اثر و رسوخ بھی استعمال کریں گے تاہم خادم حرمین الشرفین شاہ فہد نے شیخ اسامہ کے مشورے کو یکسر نظر انداز کرکر آمریکیوں کو مدد کی اپیل کر دی۔ جس کے نتیجے میں شاہی خاندان اور اسامہ کے مابعین تلخی پیدا ہوگئ اور بلاآخر 1992میں اسامہ بن لادن کو اپنا ملک چھوڑ کر سوڈان جانا پڑا۔ اسامہ بن لادن نے سوڈان میں بیٹھ کر مقدس سرزمین پر ناپاک آمریکی وجود کے خلاف عرب نوجوانوں میں ایک تحریک پیدا کی اور اس کے ساتھ دنیا بھر میں جاری دیگر اسلامی تحریکوں سے رابطے قائم کئے۔ اسی دوران اسامہ بن لادن نے دنیا بھر میں آمریکی مفادات پر حملوں کا مشہور فتوی بھی جاری کردیا۔ جدکو ساری دنیا میں شہرت ملی یہاں تک کہ اسامہ بن لادن کی امریکہ مخالف جدوجہد کی بازگشت آمریکی ایوانوں میں سنائی دینے لگی۔ یہ وہ وقت جب تنزانیہ اور نیروبی میں آمریکی مفادات پر کامیاب حملوں کے بعد سوڈانی حکومت اسامہ بن لادن کی سوڈان میں موجوگی پر کو شدید امریکی دبائو کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اسی دوران طالبان پاکستانی ایجینسیوں کی مدد سے کابل فتح کر کے تقریباً 60 فیصد افغانستان پر قدم جما کر ایک مستحکم حکومت قائم کر چکے تھے۔ اسی سال یعنی 1996 میں اسامہ بن لادن اپنے ایک پرائیویٹ چارٹر جہاز کے زریعے افغانستان پہنچے جہاں انہیں طالبان کے امیر ملا محمد عمر اخوند کی جانب سے امارات اسلامیہ افغانستان میں سرکاری پناہ حاصل ہوگئ۔ اسامہ بن لادن نے افغانستان کے مانوس ماحول میں بیٹھ کر اپنی تنظیم القائدہ کی ازسر نو منظم کی اور دنیا بھر میں آمریکی مفادات کو نشانہ بنانے کی کاروائیاں تیز کردیں۔ اسامہ بن لادن نے اپنے جہادی کیمس زیادہ تر جلال آباد سے قریب تورا بورا میں قائم کئے۔ 1997 میں آمریکی صدر بل کلنٹن نے اسامہ بن لادن کی حوالگی کے لیے طالبان پر دبائو ڈالا مگر طالبان نے اپنے مہمان کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ جسکے بعد طالبان اور آمریکہ میں تلخی کافی بڑھ گئی۔ 1998میں آمریکہ نے کروز میزئل سے افغانستان اور سوڈان پر حملہ کیا اور دعوی کیا کہ حملے میں اسامہ بن لادن کے جہادی کیمپ کو نشانہ بنایا گیا ہے اور حملوں کا مقصد اسامہ بن لادن کی زندگی کو ختم کرنا تھا۔ اس حملے کےبعد اسامہ بن لادن اسلامی کو دنیا میں ایک نئی شناخت ملی۔ پوری دنیا میں انکی شہرت ہوئی اور ہر جگہ انہی کا تذکرہ ہونے لگا۔ اس حملے کے بعد القائدہ کے قدرے کم مقبول رہنما پوری دنیا میں امریکی عزائم اور جارحیت کے سامنے واحد مدمقابل کے طور ہر پحچانے جانے لگے۔ ان حملوں کے بعد القائدہ کو رضاکار بھرتی کرنے میں بھی آسانی ہو گئی۔ ان حملوں کے بعد اسامہ بن لادن روپوش ہوگئے اور عوامی اجتمعاعات میں شرکت سے اجتناب برتنا شروع کردیا۔ آمریکی حکومت نے 11 اکتوبر2001 کو آمریکہ کے شہروں نیو یارک اورواشنگٹن میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں کا الزام محض ایک گھنٹے کے اندر ہی ہزاروں میل دور بیٹھے اسامہ بن لادن پر لگادیا۔ تاہم اسامہ بن لادن نے اس واقع میں ملوث ہونے سے واضع انکار کیا۔ اسکے باوجود دنیا کے سب سے طاقت ور ملک نے اقوام متحدہ کی منظوری سے کم از کم چالیس دوسرے خوشحال ملکوں کے ساتھ ملکل اکتوبر 2001کے وسط میں دنیا کے کم زور ترین اور پسماندہ ترین ملکوں میں سے ایک افغانستان پر دھاوا بول دیا۔ تاہم سات سال گزر جانے کے باوجود اسے اپنے بنیادی مقصد یعنی اسامہ بن لادن کو پکڑنے اور القائدہ کو ختم کرنے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔آج بھی امریکیوں کے پاس میڈیا کو جاری کرنے کے لیے دعوے تو بہت ہیں لیکن درحقیقت ان کے دامن میں نا کامی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

الزامات

اسامہ بن لادن پر کنیا کے دارالحکومت نیروبی کے دھماکوں سے لیکر ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگوں پر حملوں کے کئی الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ولڈ ٹریڈ سینٹر سے پہلے جہاز ٹکرائے جانے کہ صرف پندرہ منٹ کے اندر آمریکی میڈیا اور حکومت نے اسکا الزام نیویارک سے ہزاروں میل دور افغانستان کے پہاڑوں میں روپوش اسامہ بن لادن پر عائد کردیا تھا، تاہم مختلیف حملوں کے زرئع لگ بھگ 6000افراد کو لقمعہ اجل بنانے کا الزام ہے۔ تاہم اب تک دنیا کی کسی بھی عدالت میں آج تک ان پر کوئی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا۔ ایسے لوگوں کی کمی بھی نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن سی آئی اے کے پرانے کارندے ہیں اور سی آئی اے نے ہی انہیں اس جگہ پہنچایا جہاں وہ آج کھڑے ہیں۔ سی آئی اے کے ملٹ بیرڈن (Milt Bearden ) نے بھی ٹی وی پر اس بات کی تصدیق کی ہے۔ یہی تصدیق ریکس ٹومب (Rex Tomb) نے بھی کی جو سابقہ ایف بی آئی سے تعلق رکھتے تھے۔ اگرچہ وہائٹ ہاؤس اس بات کی تصدیق نہیں کرتا۔

روپوشی

اسامہ بن لادن دنیا کے سب سے مطلوب شخص ہیں۔ اسامہ بن لادن 1998 سے پاک افغان بارڈر کے قریب کہیں روپوش ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 2001 میں آمریکی حملوں کے بعد اسامہ کا القائدہ کی آپریشنل ایکٹیویٹی سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ وہ پہاڑوں پر رہتے ہیں اور گھوڑے یا چھڑی کی مدد سے سفر کرتے ہیں۔ مصری سانس دان اوراسامہ کے دست راست ایمن الظہوری اسامہ کی عدم دستیابی میں القائدہ کے آپریشنل نگران سمجھے جاتے ہیں۔ اسامہ بن لادن کا اب تک کا آخری انٹرویو مشہور پاکستانی صحافی حامد میر نے 2001 میں لیا تھا۔ جبکہ ان کا دنیا سے آخری رابطہ 2004 میں آمریکی انتخابات کے دوران ایک ویڈیو ٹیپ کے زرئعے ہوا تھا جو عر بی زبان کے ایک سٹیلاءٹ چینل الجزیرہ نے نشر کیا تھا۔

متضاد اطلاعات

2001 میں آمریکی حملے کے بعد سے اسامہ بن لادن کے بارے مختلیف متضاد اطلاعات ہر وقت گردش میں رہتی ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے اسامہ بن لادن آمریکی فوجیوں کے گھیرے میں آگئے ہیں تو کبھی یہ مشہور ہوجاتا ہے کہ اسامہ بن لادن انتقال کرگئے ہیں۔ بعض لوگ اسامہ بن لادن کی بیماری کی خبریں بھی دیتے ہیں اور کچھ کے خیال میں اسامہ 2001 میں تورا بورا پر آمریکی حملے کے نتیجے میں جاں بحق ہوگئے تھے ان لوگوں کے مطابق اسامہ کی بعد کے تمام پیغامات جعلی ہیں۔ تاہم ان خیالات میں سے کسی ایک کی بھی تصدیق آج تک نہ ہوسکی اور غالب گمان یہی ہے کہ اسامہ بن لادن پاک افغان سرحد کے قریب کہیں روپوش ہیں۔

خاندان

اسامہ بن لادن لادن نے تیں شادیاں کی ہیں اور انکے 24 یا 25 اولادیں ہیں۔ انکے خاندان کے زیادہ تر افراد سعودیہ عربیہ میں رہائش پزیر ہیں۔ اسامہ کے ایک صاحب زادو ایک ہثپانی دوشیزہ سے شادی کے بعد اسپین میں ساسی پناہ حاصل کرچکے ہیں اور وہ اپنے والد کی کاروائوں کے مخالف ہیں۔ اسامہ بن لادن کے چھوٹے بیٹے انکے ساتھ افغانستان میں ہی موجود ہیں اور وہ القائدہ کی کاروائوں میں حصہ لیتے ہیں۔

وفات
 امریکیوں کا کہنا ہے کہ اس کی فوج نے اسامہ بن لادن 1 2011ء مئی کو ایبٹ آباد میں قتل کر دیا۔

No comments:

Post a Comment